سارہ کا پہلا دن اور فاطمہ کی مہربانی
سارہ اپنی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ آسمان پر بادل گہرے ہو رہے تھے، بالکل اُس کے دل کی طرح۔ کل ہی تو اُن کا خاندان کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔ اَب وہ ایک نئے گھر، نئے محلے، اور نئے اسکول میں تھی۔ اُس کی ماں نے اُسے نئی یونیفارم پہناتے ہوئے کہا، بیٹا، گھبرانا نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن سارہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اسکول کے گیٹ پر پہنچتے ہی اُس نے دیکھا کہ سب بچے گروپوں میں کھڑے ہنستے بات کر رہے تھے۔ اُس نے اپنا بیگ کس کر پکڑا اور کلاس روم کی طرف بڑھی۔ دروازے پر کھڑے ہو کر اُس نے سانس لیا اور اندر داخل ہوئی۔ استانی صاحبہ نے اُس کا تعارف کروایا، یہ ہماری نئی ساتھی سارہ ہے۔ سب اُس کا خیرمقدم کریں۔ کلاس میں ایک ہلکی سی سرگوشی ہوئی، پھر خاموشی چھا گئی۔
سارہ نے کلاس کے آخری بینچ پر جگہ ڈھونڈی۔ اُس کے پاس بیٹھی ایک موٹی عینک پہنے لڑکی نے اُس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔ سارہ نے بھی جھجھکتے ہوئے مسکرانے کی کوشش کی۔ اتنے میں ایک لڑکی اُٹھی اور سارہ کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔ اُس کے بال لمبے تھے، اور یونیفارم بالکل نیچرل تھی۔ میں فاطمہ ہوں۔ تم میرے ساتھ بیٹھو گی؟ اُس نے کہا۔ سارہ نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا اور ہاں میں سر ہلا دیا۔ فاطمہ نے اپنی کتابیں سنبھالیں اور سارہ کو اپنے ساتھ اگلے بینچ پر لے گئی۔ یہاں سے بورڈ اچھا نظر آتا ہے، اُس نے کہا۔ پہلی مرتبہ سارہ کو لگا کہ شاید یہ دن اُتنا برا نہیں گزرے گا۔
دس بجے بریک کا وقت ہوا۔ سب بچے لنچ باکس کھول کر بیٹھ گئے۔ سارہ نے اپنے بیگ میں ہاتھ ڈالا تو اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اُس کی ماں نے اُس کے لیے اُس کی پسندیدہ چیز آلو کے پراٹھے بنائے تھے۔ لیکن جب اُس نے دیکھا کہ سب بچے سینڈوچ اور پیزا کھا رہے ہیں، تو اُس نے شرم سے پراٹھے بیگ میں واپس رکھ لیے۔ فاطمہ نے یہ سب دیکھ لیا۔ اُس نے اپنا لنچ باکس سارہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، میرے پاس ایک اضافی سینڈوچ ہے۔ کیا تم کھاؤ گی؟ سارہ نے ابتدا میں انکار کیا، لیکن فاطمہ کے اصرار کے آگے اُسے ہار ماننی پڑی۔ دونوں نے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ سارہ نے اپنے پراٹھے بھی فاطمہ کو دیے، جو اُس نے بہت شوق سے کھائے۔
بریک کے بعد کھیل کے میدان میں فاطمہ نے سارہ کو اپنی دوستوں سے ملوایا۔ سب نے اُس کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔ اچانک ایک لڑکی، زینب، نے کہا، فاطمہ، تم ہمیشہ نئے بچوں کو اپنے ساتھ کیوں لے لیتی ہو؟ کیا ہم تمہارے لیے کافی نہیں؟ فاطمہ نے سکون سے جواب دیا، زینب، جب میں نیویں کلاس میں تھی، تو کوئی میرا ساتھ نہیں دیتا تھا۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی اور کو ایسا محسوس ہو۔ سارہ نے فاطمہ کی طرف دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں شکرگزاری کے جذبات تھے۔
اسکول کے دن کے اختتام پر فاطمہ نے سارہ کو ایک چھوٹا سا پیکٹ دیا۔ یہ تمہارے لیے ہے، اُس نے کہا۔ اندر ایک چھوٹی سی ڈائری تھی جس کے سرورق پر لکھا تھا: دوستی کبھی اجنبی نہیں ہوتی۔ ڈائری کے پہلے صفحے پر فاطمہ نے لکھا تھا:
پیاری سارہ، تمہاری دوستی میرے لیے ایک تحفہ ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا: تم کبھی اکیلی نہیں ہو۔ — فاطمہ
سارہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اُس نے فاطمہ کو گلے لگا لیا۔ تم نے میرا پہلا دن اتنا آسان بنا دیا۔ شکریہ۔
اگلے کچھ ہفتوں میں سارہ نے نہ صرف فاطمہ بلکہ پوری کلاس کے ساتھ گہری دوستی بنا لی۔ اُس نے محسوس کیا کہ نیا ماحول اُتنا خوفناک نہیں تھا جتنا اُس نے سوچا تھا۔ فاطمہ کی مہربانی نے نہ صرف اُس کے دل کا خوف دور کیا بلکہ اُسے یہ سبق دیا کہ چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں سے کسی کی زندگی بدلی جا سکتی ہے۔ ایک دن جب کلاس میں ایک نئی لڑکی آئی، تو سارہ نے سب سے پہلے اُس کا ہاتھ تھاما۔ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا، دیکھو! اب سارہ بھی ہمارے 'مہربانی سکواڈ' کی رکن بن گئی ہے!
فاطمہ کی مہربانی نے نہ صرف سارہ کے دل سے خوف کو ختم کیا بلکہ اُسے یہ سکھایا کہ ہمدردی اور چھوٹی چھوٹی مہربانیاں کسی کی زندگی میں امید کی کرن بن سکتی ہیں۔ نئے لوگوں کے ساتھ شفقت کا رویہ ایک بہتر معاشرے کی بنیاد ہے۔
اخلاقی سبق:
مہربانی کا ایک چھوٹا سا اقدام کسی کے دن کو روشن کر سکتا ہے۔ نئے لوگوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی کا رویہ معاشرے میں محبت اور امن کو فروغ دیتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں